حماس کے سینئر لیڈر موسیٰ ابو مرزوق نے جمعہ کو انکشاف کیا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت پیر سے اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق حماس اس عمل کو عسکری یا عوامی جشن کی صورت میں نہیں منائے گا۔
EPAPER
Updated: October 11, 2025, 5:05 PM IST | Gaza
حماس کے سینئر لیڈر موسیٰ ابو مرزوق نے جمعہ کو انکشاف کیا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت پیر سے اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق حماس اس عمل کو عسکری یا عوامی جشن کی صورت میں نہیں منائے گا۔
حماس کے سینئر رکن موسیٰ ابو مرزوق نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ پیر سے شروع ہو سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حماس کا ارادہ ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے عمل کو عسکری کامیابی یا عوامی جشن کے طور پر نہیں منایا جائے گا بلکہ یہ ایک انسانی اقدام کے طور پر انجام دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے زیرِ نگرانی غزہ جنگ بندی منصوبے کے پہلے مرحلے کا نفاذ جمعہ کو دوپہر ۱۲؍ بجے سے عمل میں آیا۔ اس منصوبے کے مطابق فریقین کے درمیان قیدیوں کی رہائی اور جنگی قیدیوں سے متعلق معلومات کے تبادلے کا عمل شروع کیا جائے گا۔
اسرائیلی پبلک براڈکاسٹر کے اے این کی جانب سے شائع کردہ دستاویز کے مطابق حماس ۷۲؍ گھنٹوں کے اندر زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گا جبکہ ہلاک شدہ قیدیوں سے متعلق معلومات ایک مشترکہ میکانزم کے ذریعے فراہم کی جائیں گی۔ یہ میکانزم ترکی، قطر، مصر اور ریڈ کراس (ICRC) کی نگرانی میں کام کرے گا۔ انسانی حقوق کی رپورٹس اور میڈیا ذرائع کے مطابق، غزہ میں تقریباً ۴۸؍ یرغمال ہیں جن میں سے ۲۰؍ زندہ ہیں جبکہ ۱۱؍ ہزار ۱۰۰؍ سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی انخلا اور قابض افواج کی موجودگی
ابو مرزوق نے مزید بتایا کہ اسرائیلی فوج ’’یلو لائن‘‘ تک پیچھے ہٹ چکی ہے، تاہم غزہ کے ۵۳؍ فیصد علاقے پر اب بھی ان کا قبضہ برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے متعین کردہ انخلا کی لائنیں ’’غلط اور من مانی‘‘ ہیں اور حماس مستقبل میں ان علاقوں میں اسرائیلی موجودگی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ ابو مرزوق کے مطابق امریکہ نے جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی کیلئے فوجی اہلکار تعینات کئے ہیں، جو غزہ کے اندر نہیں بلکہ اسرائیل میں موجود رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے مرحلے میں ’’قومی منصوبے‘‘ پر توجہ دی جائے گی، جس کے تحت غزہ اور مغربی کنارے میں امن فوج کی تعیناتی پر بھی بات چیت جاری ہے۔
اندرونی فلسطینی اتفاق رائے کی اپیل
ابو مرزوق نے فلسطینی اتھاریٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک جامع قومی اجلاس بلائے تاکہ اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ ان کے مطابق، اتحاد ہی فلسطین کے بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے فلسطینی عوام کے اعلیٰ ترین مفادات کے تحفظ کیلئے ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کو قبول کیا ہے۔ ان کے مطابق ’’حماس فلسطینی عوام کی قسمت کا فیصلہ تنہا نہیں کرے گا، یہ ایک اجتماعی اور قومی فیصلہ ہوگا جس کے لیے مکمل اتفاق رائے ضروری ہے۔‘‘
جنگ بندی منصوبے کی تفصیلات
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس نے ۲۰؍ نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ منصوبہ ۲۹؍ ستمبر کو پیش کیا گیا تھا۔ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں حماس کی شمولیت کے بغیر غزہ میں نیا گورننگ میکنزم قائم کرنے، عرب و اسلامی ممالک کی امن فوج تعینات کرنے اور حماس کو غیر مسلح کرنے کی شقیں شامل ہیں۔
غزہ میں جانی نقصان
اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک اسرائیلی حملوں میں تقریباً ۶۷؍ ہزار ۲۰۰؍ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، اور غزہ پٹی کو ناقابلِ رہائش بنا دیا گیا ہے۔